یہ پتھر وادی جنات سےلایا ہوں!: دعا کے بعد اس مجلس میں بیٹھے ایک جن نے میرے سامنے چمڑے کی بنی ہوئی ایک تھیلی میں سے کچھ پتھر نکالے اور کہنے لگے: آپ اس میں سے کوئی ایک پتھر چن لیجئے میں آپ کو ایک پتھر گفٹ دیناچاہتا ہوں‘ میں نے پوچھا کہ آپ یہ پتھر مجھے کیوں دے رہے ہیں‘ کہنے لگے: دراصل یہ پتھر میں وادی جنات سے لایا ہوں اور وادی جنات کا تذکرہ کرتے ہوئے میری طرف غور سے دیکھا اور کہا یہ وادی جنات دراصل ہمالیہ کے کنارے میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں جنات بہت زیادہ رہتے ہیں‘ اور وہاں میں یہ بات سوفیصد یقین اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں اور یہ بات کہتے ہوئے اس نے تمام جنات کے مجمع کی طرف نظر دوڑائی کہ کیونکہ وہ تمام جنات شریر بدکار نہیں تھے اور اپنی بات کو پھر دہرایا کہ میں نہایت وثوق سے کہہ سکتا ہوںکہ ہمالیہ کے کنارے میں وہ لوگ رہتے ہیں جو بہت متقی اور پرہیز گار ہیں اور اللہ کےکلام کا خصوصی علم ان کے پاس ہے‘ قرآن پاک کی آیات کی تفسیر طاقت اور کمال ان پر بہت زیادہ کھلا ہے۔ انہوں نے وادی کے چپے چپے میں کلام الٰہی کی آیات کی اتنی زیادہ طاقت اور تاثیر دی ہے کہ اس چپے کے کسی بھی حصے کا اگر کوئی پتھر اٹھالیاجائے تو وہ پتھر آپ جس کمرے میں رکھیں اندھیرا ہو تو اس کمرے میں روشنی چراغ سے بھی کہیں زیادہ آنا شروع ہوجاتی ہے۔ چھوٹے سے پتھر سے کمرہ جگمگا اٹھا:یہ بات کہتے ہوئے ساتھ ہی کمرے میں مجھے لے گئے اور اس کمرے میں انہوں نے دروازے بند کردئیے‘ کھڑکیاں بند کردیں‘ اندھیرا ہوا‘ چمڑے کی پوٹلی نکالی اور مجھ سے کہنے لگے آپ خود ہی کوئی ایک پتھر نکالیے میں نے ہاتھ ڈالا میں نے جان بوجھ کر ایک چھوٹا سا پتھر نکالا جس کی جسامت سب پتھروں سے بہت چھوٹی تھی۔ بس میرا ہاتھ پوٹلی سےنکلتے ہی پتھر باہر آیا اور ساتھ ہی کمرہ جگمگ جگمگ کرنے لگ گیا۔ میں حیران! مجھے احساس ہوا کہ اللہ کا نور اگر پتھروں میں شامل ہوجائے تو پتھر اتنے روشن اور تابندہ ہوجاتے ہیں اور یہی نوراگر انسان کے اندر داخل ہوجائے تو پھر کیوں نہ اس
انسان کے نور کی وجہ سے وہ شریر جنات اس نورانی اور روحانی دیوار سے دور بیٹھے فرشتوں کی حفاظت اور حصار کا پورا انتظام تھا۔ ایک پتھر آپ ضرور لیجئے:مجھ سے کہنےلگے: اس میں سے ایک پتھر آپ ضرور لیجئے! میں نے وہی چھوٹا پتھراپنے پاس رکھ لیا‘ اس کا اصرار تھا کہ نہیں آپ بڑا پتھر لیں اور بڑے پتھر سے روشنی زیادہ ہوگی‘ لیکن میں نے مناسب نہ سمجھا میں نے وہی چھوٹا پتھر اپنے پاس رکھ لیا‘ وہ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ عجب روشنی‘ عجب نور ہاں اتنا میں نے کیا ہے کہ جو ذکر تسبیحات اور معمولات کرتا ہوں اس کی ایک پھونک اس پتھر پر مار دیتا ہوں اور جس دن میں ذکر تسبیحات معمولات زیادہ کروں اور اسے پھونک ماروں اس کی روشنی تو ویسے بہت زیادہ ہے لیکن اس دن اس کی روشنی حدسے زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ جانیے جنات ہماری نسلوںکو کیسے ورغلاتے ہیں:میری بارہا چاہت تھی کہ غار والے جنات اگر اپنے زندگی کے مشاہدات اور جنات کا رہن سہن اور جنات کا انسانی زندگی میں عمل دخل اگر بیان کریں تو مجھے بھی فائدہ ہوگا اور عبقری کے قارئین کو بھی بہت زیادہ فائدہ ہوگا چونکہ اب اس آنے والے قافلے سے کچھ مناسبت ہوگئی تھی اور وہ جنات بھی مجھ سے گھل مل گئے تھے اور پھر یہ ایک جن ان میں ایسا تھا جو مجھے پہلے سے جانتا بھی تھااور اللہ کےفضل و کرم سے دعا کی برکت سے اس کو مرادیں بھی ملی تھیں تو میں نے پھر وہی اپنا موضوع چھیڑا اور میں نے غار والے جنات کو متوجہ کیا کہ کیوں نہ وہی موضوع اور وہ سلسلہ پھر شروع ہوجائے اور اس سلسلے سے مخلوق خدا کو بہت زیادہ حالات سے آگاہی ہوئی‘ میں نے پھر سوال کیا اور اس سوال میں اس قافلے میں آنے والے بہت سے جنات اور بھی متوجہ تھے بلکہ سارے متوجہ تھے میں نے سوال کیا کہ یہ بتائیں جنات ہمارا خزانہ چوری کرلیتے ہیں‘ ہمارا کھانا کھا لیتے ہیں‘ ہماری نوجوان عورتوں کو ورغلاتے اور پریشان بھی کرتے ہیں اور ان سے بُرائی کا ارادہ بلکہ برائی بھی کرلیتے ہیں‘ ہماری نسلوں کو کیسے ورغلاتے اور پریشان کرتے ہیں ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی بیماریاں اور تکالیف کیسے لے آتے ہیں؟ ۔جن اگر شر اور فساد کی طرف متوجہ ہوجائیں تو:غار والے جن کے بولنے سے پہلے اسی قافلے میں ایک جن بڑی عمر کا تھا‘کچھ زیادہ بوڑھا بھی نہیں تھا‘ فوراً بولا: کہنے لگا دراصل بات یہ ہے کہ ہم میں سے اگر کوئی جن شریر ہوجاتا ہے یہ سب اسی کی ڈیوٹی کا حصہ ہے‘ ہمارا دن رات مخلوق خدا کو نفع دینا‘ خیر پھیلانا‘ جیسے ابھی آپ ان غار والے جنات کے حوالے سے بتارہے تھے کہ یہ ایک شادی کی تقریب میں جارہے تھے‘ وہاں ہرطرف روحانی دیواریں‘ فرشتوں کی حفاظت‘ فرشتوں کا حصار تھا اور تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ ایک بزرگ وہاں موجود ہیں۔ ان کے نیک اعمال اور نیکی کی وجہ سے اللہ نے ان کو اور ان کے مجمع کو اتنی بڑی خیر سے نوازا ہے‘ اتنی بڑی برکت سے سرفراز کیا ہے‘ بالکل اسی طرح جب ہمارے جنات جو کہ اکثر جنات خود شریر ہوتےہیں شر اور فساد کی طرف متوجہ ہوجائیں تو ان کی زندگی میں ایک چیز ایسی ہوتی ہے جس کو وہ خود پھیلانا چاہتے ہیں چاہے وہ دکھ کی شکل میں ہو یا غم کی شکل میں ہماری پھر بھی کوشش ہوتی ہے کہ یہ ایسا نہ کریں لیکن بعض اوقات ہم بے بس ہوجاتے ہیں۔یہ رزق حلال کی طاقت اور تاثیر ہے: اس کی مثال دیتے ہوئے اس قافلے کے جن نے کہا: اکثر زیرزمین خزانے ہزاروں سال پرانے یا صدیوں پرانے بہت زیادہ ہوتے ہیں‘ اگر ان خزانوں کا کوئی مالک نہ ہو تو ان پر حفاظت کا غیبی نظام ہوتاہے جنات کی کوشش ہوتی ہے کہ جنات ان خزانوں کو لوٹیں‘ لیکن چونکہ فرشتوں کا حصار اور فرشتوں کی حفاظت ہوتی ہے اور ویسے بھی اگر وہ خزانے رزق حلال کے ہیں تو ان کی غیبی حفاظت ایسے ہوتی ہے کہ کوئی طاقتور سےطاقتور جن، دیو، عفریت اس تک پہنچ تو کیا اس طرف اگر گہری نظر سے دیکھے تو اس کی آنکھیںاندھی ہوجاتی ہیں۔ یہ رزق حلال کی طاقت اور تاثیر ہے۔ اب جنات کی کوشش ہوتی ہےکہ ان خزانوں کو نکالیں اور ان خزانوں کو لوٹ لیں۔صحرائی جنات اور خزانہ کی تلاش: ایک دفعہ کا واقعہ ہے حیدرآباد شہر کے قلعہ کے اندر ایک خزانہ تھا‘ اس خزانے کا لوگوں کو علم نہیں تھا ساتھ تھر کے رہنے والے صحرائی جنات بہت عرصہ سے اس کی تلاش میں بھی تھے پھر انہوں نے تلاش کرلیا‘ اب وہ چاہتے تھے کسی طرح اس کو نکالا جائے‘ میں اس قافلے کے جن کی باتیں سن رہا تھا۔ غار والے جنات بھی اس کی باتوں میں متوجہ تھے اور سر ہلارہے تھے‘ قافلے والے جن کی باتوں میں سچائی صداقت اور حقیقت واضح محسوس ہورہی تھی۔ کہنے لگے: ایک دفعہ انہوں نے بھرپور پروگرام بنایا کہ چل کر حیدرآباد کے اس قلعہ کے نیچے خزانہ جو کہ بہت بڑا خزانہ ہے جس میں لاکھوں ہیرے، جواہرات، موتی، منوں کے حساب سے سونا، چاندی اور قیمتی پتھر جس کی قیمت شاید دنیا میں اربوں کھربوں سے بھی زیادہ ہو‘ یہ کل سینتیس جنات تھے جب یہ نکالنے کیلئےوہاں پہنچے ایک
بات کا احساس نہ رہا کہ اس خزانے پر غیبی فرشتوں کی حفاظت کا نظام ہے‘ انہوں نے اس حصار کو محسوس نہ کیا اور اس کا کوئی خیال بھی نہ کیا‘ بس یہ وہاں سے خزانہ ہی لینا چاہتے تھے آندھی طوفان کی طرح آگے بڑھے ایک خوفناک دھماکہ اور جھٹکا لگا اور اس میں سے آٹھ جنات ایک پل میں اُڑ گئے اور جل گئے۔ ان کی چیخ و پکار شروع ہوئی یہ پیچھے ہٹ گئے‘ انہیں احساس ہوا کچھ ہے‘ جب یہ ان کا احساس بڑھا تو ان میں ایک سمجھدار اور علم رکھنے والا جن تھا اس نے اپنے علم کے مطابق پرکھنا شروع کردیا پرکھتے پرکھتے وہ اپنے علم پر پہنچا اس نے کہا کہ ہٹ جاؤ اگر ہم بھی آگے بڑھے تو فرشتوں نے ہمیں بھی جلا دینا ہے ہمارے پاس طاقت ہے ہم جنات ہیں لیکن فرشتوں سے زیادہ طاقتور ہم جنات نہیں ہیں۔ تھکے‘ ہارے ‘ زخمی جنات:وہ جنات تھکے ہارے اور زخمی واپس چلے گئے جو کہ باقی بچے تھے‘ وہ پچھتاتے ہوئے اور گھبراتے ہوئے دور ہوگئے۔ قافلہ کا جن ابھی بول ہی رہا تھا تو غار کےجن نے کہا خزانوں کی کہانیاں میرے پاس بے شمار ہیں‘ جیسے انسان خزانوں کے متلاشی ہوتے ہیں‘ بالکل ایسے ہی جنات بھی خزانوں کے متلاشی ہوتے ہیں لیکن جنات خزانوں کو دیکھ سکتے ہیں انسان دیکھ نہیں سکتے پر نکال سکتےہیں‘ اگر جنات نکال سکتے کہ یہ واقعات جو وقتاً فوقتاً انسانوں کی دنیا میں ہوتے رہتے ہیں کہ فلاں جگہ سے خزانہ نکلا فلاں جگہ سے خزانہ نکلا پھر یہ کوئی خزانہ نہ نکلتا بلکہ جنات سب خزانوں کو صاف کرچکے ہوتے۔ میں نے آج کی محفل کو بہت قیمتی جانا‘ میرے دل نے چاہا کہ ان سے اور زیادہ معلومات حاصل کروں اور خاص طورپر خزانوں کے بارے میں معلومات ضرور لوں۔ کسی جن کوخزانے کے متعلق معلومات ہیں؟: اسی دوران میں نے خود ہی سوال کیا آپ میں سے کسی جن کو کسی خزانے کے بارے میں کچھ معلومات ہیں تو مجھے ضرور بتائیں ‘بہت سے جنات خزانوں کے بارے میں معلومات کیلئے بولنا چاہ رہے تھے لیکن غار والے جن نے ان میں سے ایک ہی کی بات‘ ایک ہی وقت میں سننا پسند کی۔ کہنے لگے کہ میں ایک جگہ انسانی شکل میں خدمت کرتا تھا اور ملازمت کرتا تھا‘ ایک جگہ تعمیرات کاکام ہورہا تھا۔ اس خزانہ کو ہاتھ نہ ڈالنا بے شمارجنات مارے گئے ہیں: میں نے وہاں محسوس کیا کہ کوئی خزانہ وہاں موجود ہے اور پھر چونکہ ہم جنات ہیں اور ہم نے اس خزانہ کو اچھی طرح پرکھ لیا تھا‘ اور بہت تسلی سے دیکھ لیا تھا اب میں موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی طرح یہ خزانہ میں حاصل کرلوں میں نے ایک دفعہ کوشش بھی کی کہ کسی طرح اس خزانہ کو حاصل کروں مجھے کسی نے بتایا کہ ایسے خزانہ کو ہاتھ نہ ڈالنا بے شمار جنات مارے گئے ہیں‘ ہمارے ایک بہت بوڑھے صاحب تھے جو کہ عملیات کی دنیا میں بہت زیادہ آگے تھے‘ ان کی شہرت بہت تھیں‘ ان کے تعویذ کی تاثیر کئی دفعہ پرکھی‘ ان کے وظیفے کئی دفعہ چیک کیے اور کہیں ایسا بھی ہوا کہ کتنے عجیب و غریب ناممکن کام انہیں دیئے اور انہوں نے چند دنوں میں ان کاموں کو کرکے دکھایا میں خوش خوش ان کےپاس گیا کہ کسی طرح وہ مجھے اس خزانے کا حل بتاسکیں۔ خزانہ کیا نکلتا میری جان نکلنا شروع ہوگئی: خزانہ بہت بڑا تھا میرے دل میں تھا کہ میں ان سے یہ بات واضح کہوں گا کہ آپ خزانہ اور خزانہ میں سے جتنا حصہ لینا چاہیں گے۔ میں آپ کو دوں گا لیکن کسی طرح یہ خزانہ مجھے مل جائے‘ ان سے باتیں کرتے کرتے میں نے جب ان کے سامنے اس خزانے کی طلب کا تذکرہ کیا تو مجھ سے فرمانے لگے جس طلب کو لے کر آئے ہو‘ اس طلب کو بھول جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو‘ پھر میری طرف گہری اور تیز نظروں سے دیکھ کر کہنے لگے: تو جانتا ہے میں بہت بڑا عامل ہوںاور اگر میں اپنے منہ سے کہوں کہ بہت بڑا منتر اور غیبی علوم کی دنیا کا کامل ہوں تو میں غلط نہیں کہوں گا لیکن ایک بات یاد رکھنا خزانے دراصل کبھی لوگوں کی امانت ہوتے ہیں‘ کبھی نسلوں کی امانت ہوتے ہیں اور کبھی اللہ پاک نے اسے چھپا کر رکھا ہوتا ہے اور وہ راز صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ شروع دنوں میں میں نے بھی بہت کوشش کی تھی کہ میں ان خزانوں کو نکلوا لوں لیکن خزانے کیا نکلنے تھے؟ مجھے اپنی جان نکلتی نظر آئی اور میں اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلا۔ خبردار خزانہ کے خیال سے باز آ: ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ میں نے ایک خزانہ کو تلاش کرنے کیلئے اکتالیس دن کا چلہ کیا‘ چلہ کرتے کرتے جب مجھے سینتیس دن ہوگئے میں ایک پوری امید اور توقع میں تھا اب میرا مقصد مجھے حاصل ہوجائے گا لیکن میں اس وقت بہت زیادہ مایوس ہوا جب ٹھیک انتالیس دن بعد بہت طاقتور مخلوق جو کہ نجانے کون تھے؟ نہ فرشتے تھے نہ انسان تھے‘ میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی: اگر تیرے پاس حفاظت اور حصار کے طاقتور عمل نہ ہوتے تو تجھے ہم ٹکڑے ٹکڑے کردیتے حتیٰ کہ تیری نسلوں کو پھونک دیتے اورتیری نسلوں کو ختم کردیتے‘ لیکن کل آخری دن ہے اور کل فیصلہ ہونا ہے یعنی چالیسواں دن ہے اور فیصلہ ہونا ہے اور اس چالیسویں دن میں تجھے ہم نے ختم کرنے کا بھرپور پروگرام بنایا تھا لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہوں نے تیری حفاظت کی‘ خبردار خزانہ کے خیال سے باز آ۔ یہ نظام جنات سے بھی محفوظ :قارئین!جنات ہوں یا انسان خزانہ ایک غیبی نظام کے ساتھ حفاظت میں رہتا ہے‘ یہ ایک ایسا غیبی نظام ہے جو صرف عرش والا ہی جانتا ہے‘ عام انسان اس کو نہ سمجھ سکتا ہے‘ نہ سوچ سکتا ہے‘ نہ اس نظام کو بدل سکتا ہے حتیٰ کہ یہ نظام رب نے جنات سے بھی محفوظ رکھا ہوا ہے‘ آپ حیران ہوں گے کہ جنات اس نظام کو دیکھ تو سکتے ہیں‘ پرکھ بھی سکتے ہیں لیکن خزانہ نکال نہیں سکتے‘ بالکل یہی معاملہ اس جن کےساتھ ہوا‘ اس نے چالیس دن کا چلہ کیا پر وہی غیبی طاقت جو خزانہ کی حفاظت پر معمور ہے اور ایک وقت معینہ کا انتظار ہوتا ہے کہ یہ خزانے کہاں اور کس جگہ نکلتے ہیں‘ اور نکلنے ہیں کون ان کا وارث ہے؟ اور کہاں کہاں سے آدمی آئیں گے‘ کیسے یہ بکے گا؟ پھر استعمال میں کہاں آئے گا۔ خزانہ نکالنے کے بے شمار قصے: میرے پاس بے شمار ایسے شواہد موجود ہیں کچھ لوگوں نے علم کی طاقت کی بنیاد پر خزانوں کو نکالنے کی کوشش کی‘ چونکہ علم بھی تو رب کا ہوتا ہے اور ہاروت ماروت کا قصہ یہی کچھ بتاتا ہے یعنی قرآن میں ہےکہ اللہ نے ڈھیل دی ہوئی اور ساتھ علم بھی دیا ہوا‘ کہ خیر بھی موجود ہے اور شر بھی موجود ہے‘ اب جو چاہے اس خیرکو کرلے اور جو چاہے شرکو اپنا لے‘ اب انہوں نےا گر کوشش کی بھی اور کوشش میں کامیاب بھی ہوگئے اور وہ خزانہ نکلا لیکن اس خزانہ میں خونریزی قتل‘ لڑائیاں جھگڑے بیماریاں تکالیف مسائل مشکلات مقدمات الجھنیں نسلوں کی بربادی بیٹوں کی کمی‘ مسائل ایک کے بعد دوسرے اور مسلسل مشکلات اور الجھنیں ان میں مبتلا کردیتے ہیں۔ میرے پاس ایک صاحب آئے چونکہ انہیں عمل بتایا تھا اور چالیسویں دن اس عمل میں اس کیلئے واضح اشارہ ہونا تھا کہ یہ خزانہ تیرے لیے خیرو برکت کا ذریعہ ہے یا نہیں ہے۔ (جاری ہے)
انتالیسویں دن اسے ایک منظر نظر آیا اس نے منظر دیکھا ایک بہت بڑا گڑھا ہے ایک شخص آیا اس نے گڑھے میں لکڑیاں جمع کرنا شروع کردیں اتنا بڑا گڑھا تھا کہ اگر دس اونٹ اس میں کھڑے کردئیے جائیں تو نظر نہ آئیں‘ اس نے اس گڑھے کو لکڑیوں سے پر کرکے آگ لگائی آگ جب بہت زیادہ جلی اور اس کے شعلے اور انگارے بنے تو اس نے جنگل کے تمام جانور پکڑ کر اس میں ڈالنے شروع کردئیے سب سے پہلے لومڑی کی باری آئی اس کے بعد بھیڑئیے کی ایک ایک کرکے وہ ڈال رہا تھا اور وہ چیزیں جل رہی تھیں اور جلتے جلتے وہ کوئلہ ہوجاتیں وہ اس کو کوئلہ ہونے میں انتار کرتا اس کے پاس کوئی ایسی طاقت اور تاچیر تھی کہ تمام جنگل کے جانور اکٹھے کھڑے تھے اور لائن بنا کر کھڑے تھے تمام جنگل کے جانور آوہ پکاور کررہے تھے چیخ و پکارو نالاں اس سے سارا جنگل تہل رہر تھا خوف کامنظر خوفناک آوازیں تھیں اور کربناک ایک انوکھا نظام تھا جس سے انسان ایسا دھل جاتا کہ اچھا خاصا انسان اس کو دیکھ کر مر جائے پھر جب ایک کوئلہ ہوجاتا پھر دوسرا کوئلہ بننا شروع ہوتا چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو حتیٰ کہ دودھ پیتے بچوں کو بھی یوں آگ میں ڈالتا ان کی سسکی اورسسکاری تک نہ نکلتی اور وہ چیزیں جل کر کوئلہ ہوجاتیں جانور چلتے گئے بھیڑے بھی جل گئے ہرنوں کی باری آئی پھر ہرن بھی جل گئے پھر پرندوں کی باری آئی غول کےغول پرندے آرہے تھے اور وہ شخص اکٹھے پکڑ پکڑ کر یوں آگ میںجھونک رہا تھا جیسا کہ خشک پتوں کو جھونکا جاتا ہے اور وہ سارے ایک ہی شعلہ میں جلے جارہے تھے اور ایسے جل رہے تھےکہ ایک طوفان تھا ہاتھی جلے شیر جلے چیتے جلے کوئی جانور ایسا نہیں جو بچ گیا ہو۔ یہ عامل یہ منظر دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر کے بعد سارے جنگل کو جلانے والے خون کا اس شخص نے اس عامل کی طرف دیکھا کیونکہ میں نے پہلے اسے کہا ہوا تھا کہ تجھے ایسے خوفناک منظر دکھائی دئیے جائیں گےجس کو تو برداشت نہیں کرسکتے گا لیکن کبھی ڈرنا نہیں ہلکی سی جھرجھری بھی تیرے عمل کی چادر کو تجھ سے اتار دے گی اور وہ چادر حفاظت کی چادر ہوگی‘ اس نے بالکل یہی کیا سارے منظر کو دیکھنے کے بعد اس نے کسی قسم کا خوف اپنےاوپر سوار نہیں کیا حتیٰ کہ وہ قاتل اور خونخوار شخص اس کی طرف بڑھا اور اس پر ہاتھ ڈالا اس نے اس کے ہاتھ کے لمس کو اپنے جسم پرمحسوس کیا لیکن اس کے پیچھے میری بات تھی وہ اس بات پر مضبوط رہا اور اس نے ہلکا سا خوف محسوس نہ کیا‘ بس تھوڑی دیر کے بعد اس خونخوار شخص نے زور سے قہقہہ مارا اور اتنا زور کا قہقہ کا تھا کہ اس کے منہ سے آگ کے شعلے تھے اور اس کے قریب جتنے بھی درخت تھے وہ جل گئے اور تھوڑی دیر کے بعد وہ چھوٹاہوتا چلا گیا اس سے پہلے اس کا قد پہار جتنا تھا چھوٹے ہوتے پہلے وہ ہاتھی بنا پھر گھوڑا بنا پھر خچر بنا پھر گدھا بنا پھر بکری بنا پھر کتا بنا پھر کتے کا بچہ بنا پھر بلی بنا پھر بلی کا بچا بنا پھر چوہا بنا اور ایک بل میں گھس گیا۔ اور ایک آواز آئی کہ یہ خزانہ تیرے لیے خیر کا ذریعہ نہیں کہ چونکہ تونے نوری عمل کیا ہے اور نورانی عمل کیا ہوا کبھی ضائع نہیں جاتا اس کی طاقت اس کی تاثیر اور اس کا کمال ہمیشہ رہتا ہے اور اس طاقت تاثیر اور کمال کی وجہ سے اس کے اندر ایک ایسی تاثیر پیدا ہوجاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں سے اس کا راستہ نکلتا ہے اور کہیں نہ کہیں سے وہ کوئی عامل کو خیر دے کر جاتا ہے‘ اور ایسی خیر دے کر جاتا ہے جس سے اس کی نسلیں شاذو آباد ہوجاتی ہیں۔ وہی غیبی آواز ایک بار پھر گونجی اور اور ایسی گونجی کہ اس کے قلب اور جگر میں اترگئی اور اس آواز نے پھر کہا یہ خزانہ تیرے لیے خیر کا ذریعہ نہیں اب تو اگر اس خزانہ کو پانا چاہتا تو اس کو اسی حال پر چھوڑ دے اور اس غیبی آواز نے بتایا ہم تجھے ایک عمل بتاتے ہیں وہ ہے سورۂ رحمٰن کی آیت فبای۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تکذبان۔ بس اس آیت کو اس ترتیب سے پڑھ اس غیبی آواز نے ایک ترتیب بتائی۔ کہ اس ترتیب سے پڑھتا جا اور اس کے کمال دیکھتا جا وہ شخص مجھ سےکہنے لگا کہ چالیس دن پورے کرکے میں نے وہ عمل چھوڑ دیا اگر پیچھے آپ کا ہاتھ اور ہدایات اور آپ نے میرے لیے جو حصار اور حفاظتی روحانی نورانی قلعہ بنایا تھا وہ نہ ہوتا وہ مجھے بھی اٹھا کر اس میں جلا دیتا اور جلانے سے مراد یہ ہےکہ یا تو یہ شخص پاگل ہوجاتا یا لولا لنگڑا اپاہج کانا اندھا کسی نہ کسی شکل میں یہ شخص ہوجاتا اور بربادی اور نقصان اس کی نسلوں میں چلا جاتا۔
اور وہ بار بار آنسو بہا کر ایک بات کہہ رہا تھا کہ حضرت علامہ صاحب میں آپ کا بہت مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے ایسا روحانی عمل بتایا جس کو میں نے کیا میں ایک مفلس اور غریب آدمی ہوں اور تنگدست انسان ہوں آپ غریب پرور ہیں غربا کی مدد کرتے ہیں غربا کا ساتھ دیتے ہیں غربا پر شفقت فرماتے ہیں اور غربا میں عنایات کرتے ہیں آپ کا احسان ہے وہ شخص مزید کہنے لگا کہ اس غیبی آواز نے مجھے اس آیت کا جو عمل بتایا کیا میں کرلوں؟ مٰں نے اعتماد اور بھروسے سےکہا ہاں کرلےمیری روحانی توجہ روحانی طاقت اور روحانی کمالات تیرے ساتھ ہوں گے انشاء اللہ اس عمل میں تجھے بہت کچھ ملے گا وہ ستر دن کا عمل تھا اور اسی ترکیب کے مطابق جو ترکیب اس غیبی آواز نے بتائی تھی اس نے کرنا شروع کردی اور کرتے کرتے حتیٰ کہ اس کے ستر دن پورے ہوگئے اس دوران کوئی اسے خواب نہیں آیا کوئی خیال نہیں ٓٓیا کوئی خوف محسوس نہیں ہوا بہت سادگی اور اطمینان سے اس نے یہ تمام عمل پورے کرلیے اور پورا کرنے کے بعد پھر میرے پاس آیا مجھے کہنے لگا کیا ہوگا؟ میں نے پوچھا اس غیبی آواز نے اس عمل کی طاقت تاثیر نفع یا فائدہ وغیرہ کچھ بتایا کہنے لگا انہوں نے کہا تھا بس یہ عمل کرلے اور اس کا نفع ہم پر چھوڑ دے‘ اس کا فائدہ ہم خود دیں گے اور ہم اس کا جو فائدہ دیں گے تیرا خیال اور گمان سےبالاتر ہوگا قارئین آج سالہا سال ہوگئے میں آپ کو یہ واقعہ سنارہا ہوں آج بھی مجھے وہ شخص ملتا ہے جس نے کالے عمل کے زورپر خزانہ نکالنے کی کوشش نہیں کی اس نے روحانی اورنوری عمل کی مدد سے خزانہ تک رسائی حاصل کرلی لیکن ایک روحانی آواز نے اس کو خزانہ سے روک کر اس آیت کا عمل دے دیا اور اس آیت کے عمل کے کرنے کے بعد کئی سال تک تو اس کو اس کانفع فائدہ رزلٹ یا نتیجہ نہ ملا بس! چند سالوں کے بعد اس کے لیے خیر کے غنچے کھلنے لگے برکتوں کی کلیاں پھوٹنے لگیں راحت کےدروازے کھلنے لگے خوشیاں مچلنے لگیں اور ایسے ایسے کمالات برکات ثمرات اور خیریں اس کے قریب آنا شروع ہوگئٰن خود اس کی عقل اس کا شعور اس کا احساس حیران تھا۔ رزق ملا‘ صحت ملی‘ بیماریاں گئیں‘ دکھ دور ہوگئے‘ پریشانیاں دور ہوئیں‘ مشکلات حل ہوئیں‘ مسائل حل ہوئے‘ اور زندگی کی ناکامیاں ختم ہوکر کامیابیوں کے دروازے کھلنا شروع ہوگئے‘ شان و شوکت عزت و راحت خیر اور برکت اس کے قریب آنا شروع ہوگئے اور اس کا وہ نظام بنا کہ جو شاید یہ سوچ نہیں سکتا تھا اوراس کے گمان میں نہیں آسکتا تھا آج بھی وہ دنیا کا خوشحال انسان ہے راحتیں برکات عزتیں شہرتیں سواریاں اور گھر اس کے پاس بے بہا اور بےشمار۔
قارئین! اصل بات یہ ہے کہ جو شخص ایک فیصلہ کرلے کہ میں نے خیر کو ہی تلاش کرنا ہے شر سے دوررہنا ہے اور برکت کا متلاشی رہنا ہے ایک شخص میرے پاس آیا اسے کسی سندھ کے عامل نے ایک عمل دیا اس عمل میں اسے یہ کہا گیا کہ تو کیلے کے درخت کے نیچے بیٹھ کر صرف گیارہ دن یہ عمل کر گیارہ دن میں دن کو عملکرنا تھا اور رات کو سونا تھا کوئی سختی پابندی نہیں تھی یعنی ترک جلالی‘ ترک جمالی‘ ترک لذات‘ ترک ھیوانات ترک شہوات‘ بڑا گوشت نہٰں کھانا‘چمڑے کےبرتن‘ چمڑے کی جوتی اور چمڑے کی چیزیں استعمال نہیں کرنی‘ بیوی سے نہیں ملنا‘ نظروں کو پاک دل کو پاک اور حرام سے بچنا ہے اور بھی بے شمار قیود اور چیزین اس کے ساتھ تھیں یہ ساری چیزیں اس نے کیں اور گیارہ دن کا پورا
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں